An excellent example of serving parents in Urdu | والدین کی خدمت کرنے کی عمدہ مثال

والدین کی خدمت کرنے کی عمدہ مثال

تحریر: شمائلہ سعید   

         عصر حاضر میں والدین سے  برا  رویے و برتاؤ کے مختلف واقعات سننے اور پڑھنے کوملتے ہیں تاہم ایسا واقعہ یا عمل جس میں ان سے محبت و احترام کا تذکرہ ملتا ہو ،الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کا بہت کم  سامنے آتے ہیں ۔الیکٹرانک میڈیا کو ریٹنگ چاہیے جو کہ منفی سوچ پر ان کو زیادہ ملتی ہیں،پرنٹ میڈیا کو بھی ریڈرشپ چاہیے جس کے لیے ہر پرنٹ میڈیا کی اپنی پالیسیز ہیں۔ جبکہ سوشل میڈیا  (فیس بک ،انسٹاگرام،ٹویٹراور ٹک ٹاک وغیرہ ) پر بھی دیکھاواں زیادہ ہے اور حقیقت کم  ہے۔ایسے میں ایک حقیقی   واقعہ جو کہ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کی زینت بنا  اور سوشل میڈیا پر بھی اس کو خوب سراہا گیا۔عدالت میں عام طور پر وہ لوگ جاتے ہیں جن کا تعلق  قتل ،جائیداد، زمین، نکاح اور  طلاق وغیرہ سے ہوتا ہے۔

مگر ایک کیس ایسا بھی دکھائی دیا جس میں دو بھائی ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے، ان کا کیس دیکھ کر جج صاحب بھی دونوں پرفخر کر رہے تھے کیونکہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس تھا جس میں بھائی ما ں کی خدمت کی خاطر عدالت میں آئے۔

" ایک بھائی کہتا خدمت کرنا میرا حق ہے دوسرا کہتا میرا ہے۔ دونوں کر دلائل سن کر پریشان جج تھے کہ یہ ایک عجیب تنازعہ ہے ۔ ماں کی عمر 90 برس، بڑا بھائی 70 اور چھوٹا 65  سال کا تھا۔جج نے چھوٹے بھائی سے کیس دائر کرنے کی وجہ پوچھی؟ چھوٹے نے کہا : میں اپنے الگ گھر میں رہائش پذیر ہوں ۔ میرا یہ بھائی کافی عرصہ سے ماں اپنے پاس رکھ کر اس کی خدمت کر رہا ہے۔ جج نے پوچھا کیا بھائی تمہیں والدہ سے ملنے نہیں دیتا۔ کہا نہیں جج صاحب ایسی کوئی شکایت نہیں ہے۔ میں جب چاہوں والدہ سے مل سکتا  ہوں،بھائی نے مجھے ماں سے کبھی بھی ملنے سے منع نہیں کیا۔جج نے پوچھا پھر تم کیوں چاہتے ہوکہ ماں تمہارے پاس رہے ۔کہا جناب والا بھائی کی عمر مجھ سے پانچ برس زیادہ ہے۔ میری صحت میرے بھائی سے اچھی ہے۔ جس کی بنا پر میرا بھائی اب ماں کی خدمت نہیں کر سکتا جیسے پہلے کرتا تھا۔ لہذا اب ماں کی خدمت کرنے کا موقع دو۔ماں کو اب میرے پاس رہنے دو ۔اب میں ماں کی خدمت کر سکوں لیکن بھائی  میری بات نہیں مان رہا ۔ مجبورا مجھے عدالت کا رخ کرنا پڑا ۔ جج صاحب کسی نتیجے پر نہ پہنچ پایا تو پوچھا کیا والدہ عدالت آسکتی ہے۔ کہا ویل چیئر پرلے آئے ۔ایک بیٹا والدہ کے دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب کھڑا تھا۔جج صاحب نے اس بوڑھی والدہ سے  مخاطب ہوکر کہا کہ آپ بتائیں آپ کس بیٹے کے پاس رہنا پسند کریں گی۔ والدہ نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا مجھے دونوں بیٹے پیارے ہیں ۔ دونوں ایک سے پڑھ کر میری خدمت کرتے ہیں۔یہ سن کر جج صاحب نے فیصلہ چھوٹے بیٹے کے حق میں دے دیا کیونکہ بڑے بیٹے کی عمر زیادہ ہونے سے ماں کا اتنا اچھا خیال نہیں کر سکتا تھا جتنا چھوٹا کر سکے گا۔ چھوٹا بیٹا بوڑھی ماں کو ساتھ لے کر اپنے گھر روانہ ہونے کیلئے عدالت سے باہر آیا تو دونوں بھائی رو رہے تھے۔ بڑا بیٹا رو رہا تھا کہ اپنی عمر  زیادہ  ہونے کی وجہ سے اب اپنی والدہ کی خدمت نہیں کر سکوں گا اور دوسری طرف چھوٹا بیٹا خوشی سے رو رہا تھا کہ اب مجھے بھی ماں کی خدمت  کرنے کا موقع مل گیا۔یہ سچا اور منفرد واقعہ سعودی عرب کا ہے۔ اس کیس  کے متعلق متعدد اخبارات نے تصاویروں کے ساتھ کوریج دی ۔ تصویروں  میں دونوں بیٹوں کو روتے ہوئے دکھایا گیا۔ماں کے اس پیار کو سب نے سراہا۔اس کا کریڈٹ ما ں کو  جاتا ہے جس نے اپنے بچوں کی ایسی تربیت کی کہ وہ خوشی خوشی ماں کی خدمت کو کرنے کومرے جارہے تھے۔"[1]

ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے جو ماں کی خدمت کو اپنی خوش نصیبی خیال کرتے ہیں تاہم اس کیس میں  فریق بڑا ہیٹا اس کی وفات کی خبر بھی اخبارات کا حصہ بنی۔ان کا  نام حیزان الحربی تھا۔

" عدالت کی طرف سے حیزان الحربی کو ماں کی خدمت کی اجازت اس لیے نہ دی گئی کہ وہ خود بڑھاپے میں تھے جب کہ ان کے چھوٹے بیٹے  ماں کی بہتر خدمت بجا لا سکتے تھے ۔ ایک ماہ قبل حیزان الحربی گاڑی کی ٹکر سے شدید زخمی ہوگئے تھے ۔ انہیں ہسپتال لے جایا گیا جہاں وہ کچھ عرصہ کومے میں رہنے کے بعد چل بسے ۔"[2]

یہ بہترین تربیت کی عمدہ اور قابل تحسین مثال والا واقعہ ہے ۔ماں نے بچوں کو رشتوں سے محبت اور ان کا احترام کرنا سیکھایا ہے۔عمومی طور پر یہ نظر نہیں آتا بلکہ رشتوں کی اہمیت سے زیادہ دولت کی اہمیت پر زور ہوتا ہے۔جس کی وجہ سے احترام کی جگہ خود ٖغرضی  اور مادیت پرستی  عام ہو رہی ہے۔اس معاشرے میں ایسے واقعات اس بات کو ظاہر کرتے ہیں ابھی   ایسے لوگ باقی ہیں جو   والدین سے محبت اور ان کا احترام کرتے ہیں۔


www.nawaiwaqt.com  روزنامہ نوائے وقت، طلعت عباس خان  ، یہ ہوتی ہے ماں کی محبت،13 دسمبر 2018ء  [1]

www.alarbiya.net العربیتہ ، ماں کی خدمت کے لیے عدالت میں مقدمہ لڑنے والا سعودی شہری چل بسا، 5 مئی 2019ء  [2]

Post a Comment

4 Comments