Abu Ala Maududi, Islamic Thinker In Urdu | اسلامی مفکر ابو الاعلی مودودی


اسلامی مفکر ابو الاعلی مودودی

تحریر: طوبیٰ افضل

مولانا ابوا لاعلیٰ مودودی کا شمار اسلامی اسکالروں  میں ہو تا ہے آپ ایک مفکر ،ادیب،خطیب ،مفسراور صحافی تھے ۔ آپ نے مختلف موضوعات پر کتابیں لکھیں جن میں سےقرآن پاک کی تفسیر،تفہیم القرآن بہت مشہور ہوئی ۔

٭ پیدائش

مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کی پیدائش 3 رجب 1331ہجری  پچیس ستمبر 1903ء میں محلہ چپلی  پورہ  اورنگ  آبا د (ہندوستان ) میں  ہوئی ۔[1]

٭  نام

آپ کی ولادت کے کچھ عرصہ پہلے ایک بزرگ آپ کے والد محترم کے پاس آئے  اور انہیں ایک نیک بخت بیٹے کی خو شخبری دی ۔اور آپ کے والد محترم کو تاکید کی کہ اس کا نام ابو الاعلیٰ رکھیں ۔اس لیے آپ کے والد محترم نے اپنے  بیٹے کا نام  ان بزرگ کی ہدایت کے مطابق  ابو الاعلیٰ مودودی رکھا۔[2]

٭ والدین

مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کی پیدائش ا یک نیک گھر میں ہوئی ۔آپ کے والد کا  نام  سید احمد حسن تھا آپ کے والد پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے لیکن ان کا رجحان  عبادت و زہد کی طرف زیادہ تھا  یہاں تک کے ان کی عبادت ان کے زہد پر غالب آ جاتی تھی ۔آپ کی والدہ اماں بی  رقیہ بھی نہایت نیک اوصاف کی مالکہ تھیں  اسی لئے مولانا کی تربیت بھی ایک نیک گھر میں ہوئی ۔[3]

٭ تعلیم و تربیت

سید مودودی کی ابتدائی تعلیم گھر سے شروع ہوئی وہیں مختلف اساتذہ سے کسب فیض کرتے رہے ۔ابتدائی تعلیم کے بعد گیارہ سال کی عمر میں آپ کو مدرسہ فوقانیہ کی آٹھویں جماعت میں داخل کروایا گیا ۔اس وقت اپنے ہم جماعتوں سے کم عمر ہونے کے باوجود آپ کی معلومات سب سے زیادہ تھیں۔[4]

مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کو ابتدائی تعلیم آپ کے والد محترم نے ہی دی ۔بچپن سے ہی آپ کے والد محترم آپ کو مسجد لے جاتے ۔آپ نے پانچ سال کی عمر میں قرآن پاک کی تیس آیات یاد کر لی تھیں ۔

     مولانا ابوالاعلیٰ لکھتے ہیں ۔

میرا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جس میں تیرہ سو برس تک سلسلہ ارشاد و ہدایت اور فقر و درویشی جاری رہا ہے ۔اسی خاندان کے ایک نامور بزرگ مولانا ابو احمد ابدال چشتی ،حسن احمد مثنیٰ بن حضرت امام حسن کی اولاد میں سے تھے خواجہ ناصر الدین ابو یوسف کے فرزند قطب الدین مودودی چشتی تھے جو تمام سلاسل چشتیہ اور خاندان مودودی  کے مورث اعلیٰ ہیں۔ اس زمانے میں انگریزی تہذیب اور انگریزی تعلیم  کے خلاف مسلمانوں میں جو شدید نفرت پھیلی ہوئی تھی اس کاحال سب جانتے ہیں مگر عام مسلمانوں کی نسبت ہمارا خاندان اس سے بھی کچھ بڑھ کر تھا ۔کیونکہ یہاں مذہب  کے ساتھ مذہبی پیشوائی بھی شامل تھی ۔ان کی اس تربیت اور عملی نمونے کا یہ اثر تھا کہ ابتداء ہی میں میرے دل و دماغ پر اسلام کے گہرے نقوش تھے اور والد صاحب نے پہلے دن سے ہی  اردو اور فارسی  کے ساتھ عربی زبان ،فقہ  اور حدیث کے درس میں ڈال دیا تھا ۔[5] مولانا مودودی نے اپنے بچپن میں ہی عربی زبان میں اتنی استعداد پیدا کر لی تھی کہ  تیرہ سال کی عمر میں شیخ عبد العزیز شاویش کی تصنیف "الاسلام و الاصلاح" کا اور ساتھ ہی قاسم امین بے کی کتاب "المراہ الجدیدہ" کا ترجمہ اردو میں کر سکیں ۔یہ تراجم اس وقت ان کے علمی ذوق کے اولین مظاہر تھے ۔[6]

٭صحافت

مولانا مودودی کو لکھنے میں مہارت حاصل تھی اس لیے آپ نے اپنی ان خداداد صلاحیتوں کو معاش کا ذریعہ بھی بنا لیا ۔آپ نے ایک صحافی کی حیثیت سے کیرئیر کا آغاز کیا بعدازاں ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی کام کیا ۔[7]

٭تصانیف

سید مودودی بے پناہ ذہانت اور خداداد صلاحیتوں کے حامل انسان تھے آپ نے بہت سے مضوعات پر کتابیں لکھیں ۔آپ کی تصانیف درج ذیل ہیں ۔

·         دولت آصفی اور حکومت برطانیہ

·         الجہاد فی السلام

·         سیرت سرور عالم

·         تفہیم القرآن

·         خلافت و ملوکیت

·         خطبات

·         مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش

·         دینیات

·         تجدید و احیائے دین

·         اسلام کا سیاسی نظام

·         اسلام دور جدید کا مذہب

·         درود ان پر سلام ان پر

·         پیغام اتحاد امت

·         سانحہ اقصیٰ

·         اصلوب دعوت

·         طاقت کا سر چشمہ 

٭سید مودودی کے متعلق اہل علم کی رائے۔

٭مولانا قاری محمد طیب کی رائے

آپ کی رائے کے مطابق "مولانا مودودی نے اسلامی اجتماعیت کے بارے میں نہایت مفید اور قابل قدر ذخیرہ فراہم کیا ہے اس دور میں خلط و اختلاط اور تلبیس و التباس میں جس بے جگری سے انہوں نے اسلامی اجتماعیات کا تجزیہ اور تنقیح کر کے جماعتی مسائل کو صاف کیا ہے وہ ابھی کا حصہ ہے میں انہیں اسلامی اجتماعیت کا ایک بہترین سیاسی مفکر سمجھتا ہوں اور اجتماعیات کی حد تک انہیں ایک بہترین اسلامی لیڈر مان کر ان کی تقریروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں ۔"

٭مولانا سید سلیمان ندوی کی رائے

" میں اس وقت ایک نوجوان کا تعارف کرانے کے لیے کھڑا ہوں ۔مولانا مودودی صاحب سے علمی دینا پوری طرح واقف ہو چکی ہے ۔اور یہ حقیقت ہے کہ آپ اس دور کے متکلم اسلام اور ایک بلند پایہ عالم دین ہیں ۔اور جو قرآن و سنت کا اتنا گہرا اور واضح علم رکھتا ہے کہ موجودہ دور کے تمام مسائل پر اس کی روشنی میں تسلی بخش گفتگو کر سکتا ہے ۔اور یہ بات واضح طور پر کہی جا سکتی ہے کہ مودودی صاحب سے ہندوستان اور عالم اسلام کے مسلمانوں کی بہت سی توقعات دینی وابستہ ہیں ۔"[8]

٭سید ابو الا علیٰ مودودی کے اسلوب پر مصنفین کے اعتراضات

سید ابو الاعلیٰ مودودی کے اسلوب پر بہت سے مصنفین نے اعتراضات کیے ۔اور ان کے خلاف کتابیں لکھیں ۔مثلاً مولانا اعجاز احمد اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ۔

"جماعت اسلامی کے بانی سید ابو الاعلیٰ مودودی دور حاضر کے زبر دست انشاء پر داز اور کثیر التصنیف  صاحب قلم تھے بہت کچھ لکھا اور متعدد موضوعات پر کتابیں تالیف کیں ان میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل وہ کتاب ہے جسے انہوں نے قرآن مجید کی ترجمانی کے طور پر لکھا ہے اور تفہیم القرآن کے نام سے معروف ہے موصوف کی طبیعت میں ابتداء ہی سے تجدد کا ذوق تھا ان کا کوئی مضمون کہیں سے اٹھا کر پڑھ لیں تجدد کی دولت سے مالا مال ملے گا یہی ذوق تفہیم القرآن کے ورق ورق میں نمایاں ہے انہیں اس سے واسطہ نہیں کہ کسی آیت کی تفہیم و تشریح مفسرین کیا کرتے ہیں احادیث میں کس طرح اس کی تفسیر کی گئی ہے سلف صالحین اس سے کیا سمجھے ہیں ۔یہاں صرف یہ نظریہ ہے کہ مودودی صاحب اس سے کیا سمجھیں ہیں اس کو وہ انشاء پردازی کی خداداد صلاحیت اور قلم کی تمام تر توانائی صرف کر کے ثابت کر دیتے ہیں کہ یہی مطلب صحیح ہے ۔اللہ کے فرمان کا منشاء یہی ہے اس کے علاوہ جو کچھ کسی نے لکھا اور بیان کیا ہے اس نے یا تو قرآن کو سمجھا نہیں یا سمجھنے کے باوجود دیدہ و دانستہ تحریف کا مرتکب ہوا ہے نعوذ باللہ اور اگر کبھی ان کے سمجھے ہوئے مطلب کی راہ میں کوئی صحیح حدیث حائل ہوئی تو نہایت جرات  و بے باکی کے ساتھ  اسے بھی رد کرنے میں کوئی تکلف محسوس نہیں کرتے ۔مزید برآں لہجہ اتنا تند اور تلخ ہو جاتا ہے کہ جس کے دل میں اسلاف و اکابر کا ذرا بھی پاس و لحاظ ہو اس کا قلب و جگر تلملا اٹھے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مودودی صاحب نے جب تفہیم القرآن لکھنے کے لئے کاغذ و قلم جمع کیا تو پہلے ہی قدم پر ادب و احترام کو اذن رخصت دے دیا۔"[9]

٭وفات

آپ  نے 28شوال 1399ہجری 22ستمبر 1979ء میں  وفات پائی۔[10]

حوالہ جات:

[1] سیدہ حمیرا مودودی ،شجرہائے سایہ دار،منشورات،منصورو ملتان روڈ،لاہور،ص  7

[2] ظہور الدین بٹ،صدی کا بیٹا ،لاہور ،بچوں کا ادارہ ادب اطفال گنج شکر پرنٹرز  ،ص 12

[3] سیدہ حمیرا مودودی،شجر ہائے سایہ دار،ص 7

[4] شامی ،مجیب الرحمان ،ہفت روزہ زندگی ،لاہور:خصوصی اشاعت  29ستمبر تا 15 اکتوبر1989ء،ص 12

[5] سیدہ حمیرا مودودی،شجر ہائے سایہ دار،ص 8

[6] معین الدین عقیل،مولانا مودودی کی تاریخ نویسی،معارف مجلہ تحقیق،جنوری تا جون  2015

[7] جماعت اسلامی پاکستان اور مولانا ابواعلیٰ مودودیwww.Jammat .org. 

[8] مولانا عامر عثمانی ،تفہیم القرآن پر اعتراضات کی علمی کمزوریاں ،کراچی:مکتبہ الحجاز ،ص  13

[9] محمد یوسف بنوری،مترجم:(اعجاز احمد اعظمی)،سید ابو اعلیٰ مودودی اپنے افکار و نظریات کے آئینے میں ،انڈیا،یو  پی:ادارہ دعوۃ الاسلام،ص  97

[10] ماھنامہ فاران ،ص 17 ،یکم مئی 1923ء

Post a Comment

1 Comments